Tuesday, July 3, 2018

کڑوا سچ

(پروفیسر نے گرج دار آواز میں دانش کو ڈانٹ دیا اور کلاس روم سے باہر جانے کا حکم دیا۔)

پروفیسر:آج تو اس نے حد کردی۔نیوٹن کے خلاف زبان چلا نا شروع کردی۔پتہ ہے وہ کتنا بڑا سائنسدان تھا؟ابھی تم مڈل بھی پاس نہیں کرسکے۔تمہیں کیا پتہ اصول کیسے بنتے ہیں؟ 

دانش :سر!گستاخی معاف۔ہم کسی بھی سائنسدان کے اصول کو غلط ثابت کیوں نہیں کرسکتے؟

پروفیسر: اس کے لیے سالہا سال کی محنت درکار ہے اور تم لوگوں کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے سکول کے چکر لگاتے ہوئے۔تم کیسے کسی بھی سائنسدان کے اصول کو غلط ثابت کرسکتے ہو؟

دانش:سر!میں بھی یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آئے دن ہم لوگ اسلام جیسے نازک موضوع کو لے کر نکتہ چینی شروع کردیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی اسلام پر بولنے کا حق رکھتا ہے چہ جائیکہ اسے وضو کے فرائض سے آگاہی ہو یا نہ ہو۔شریعت اسلامیہ کا ہر مسئلہ اپنی عقل کی کسوٹی پر رکھ کر سوچا جاتا ہے اور جواب نہ ملنے پر نہ میں سرہلادیا جاتا ہے خواہ وہ مسئلہ قرآن کی نص صریح سے ثابت ہو یا حدیث متواترہ سےموصوف کی عقل کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اہمیت کھوچکا ہوتا ہے۔العیاذ باللہ 

جیسے ایک مڈل کا طالب علم فزکس،کیمسٹری یا بیالوجی کے اصول وضع نہیں کرسکتا یونہی ایک عام مسلمان اصول دینیہ پر بحث کا حق نہیں رکھتا البتہ اپنے تمام شرعی مسائل کا حل کسی صحیح العقیدہ عالم دین سے حاصل کرسکتا ہے لیکن اس میں نکتہ چینی اس کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔دیکھیں نا سر!قرآن بھی تو ہمیں یہی سکھاتا ہے:" فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ"(ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔)

سر!ہمیں چاہیے کہ جس علمی میدان میں ہم اپنا وقت صرف کررہے ہیں اسی میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں جب کہ جو کام علماے کرام کا ہے وہ ان پر چھوڑ دیں اور وقتا فوقتا اپنے متعلقہ شرعی مسائل سے آگاہی حاصل کرلیں۔ان حساس موضوعات پر لب کشائی ہمارے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

پروفیسر:بات تو تم ٹھیک کہتے ہو!مگر وہ کیسے؟

دانش:سر!بالکل ایسے ہی جیسے شیطان نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں کیونکہ میں آگ سے بنا ہوں جبکہ حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔

سر!بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں اور دیگر کاروباری دفاتر میں علم دین نہ ہونے کی وجہ سے شرعی مسائل پر اسی طرح ہرزہ سرائی کی جاتی ہے اور خود کو عقل الکل تصور کرکے فتوی داغ دیا جا تاہے خواہ اس سے کسی کا ایمان برباد ہوجائے۔

پروفیسر:دانش!آج توتم نے بہت پتے کی باتیں کی ہیں۔چلو آج سے میں بھی کوشش کیا کروں گا کہ کوئی بھی بات خاص طور پر اسلامی گفتگو کسی عالم سے پوچھ کرکیا کروں ۔

No comments:

Post a Comment

💔💔💔💔